بنگلور میں کرناٹک اردو اکیڈمی کا دوروزہ صحافیوں کا کارگاہ
بنگلور28فروری ( ناز میڈیا اردو ) کرناٹک حکومت محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت کرناٹک اردو اکادمی کی جانب سے ریاست بھر کے اردو صحافیوں کیلئے دو روزہ ورکشاپ ( کارگاہ) کا بنگلور شہر کے مضافات جنگلاتی علاقہ بینز گھٹا بیولوجیکل پارک کے نیچر کمیپ میں واقع کا نفرنس ہال میں عظیم الشان پیمانے پر انعقاد عمل میں آیا۔ اس تربیتی ورکشاپ کے پہلے دن کا آغاز جناب ڈاکٹر معاذ الدین خان معزز رجسٹرار کرنا تک اردو اکادمی کی قراءت کلام پاک سے ہوا۔ جس کا اردو تر جمعہ جناب کفایت اللہ رابطہ کاراکیدمی نے پیش کیا۔ مذکورہ بالا پروگرام میں بحثیت مہمانان خصوصی پروفیسر اعظم شاہد معروف کالم نگار، پروفیسر احتشام احمد خان، ڈین مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد، اردو اکادمی کے سابق صدور جناب سید قدیر ناظم سرگروہ اور جناب مبین منور کے علاو و معروف صحافی جناب افتخار احمد شریف، سابق مدیر، روز نامہ سالار نے شرکت کی ۔ مذکورہ بالا پروگرام تمام مہمانان خصوصی کے ہاتھوں اس موقع پر ایک کیاری میں درخت کو پانی دیا گیا۔ ڈاکٹر معاذ الدین خان، رجسٹرار، کرناٹک اردو اکاڈمی نے دو روزہ ور کشاپ کی غرض و غایت بتائی اور تمام مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے ان کی شالپوشی کی۔ ورکشاپ میں شریک ریاست بھر سے آئے اردو صحافیوں نے مختصر طور پر اپنا اپنا تعارف پیش کیا۔ ملک کے معروف کالم نگار جناب پروفیسر اعظم شاہد نے بعنوان "صحافت کا تعارف اور اردو صحافت کی اہمیت پر پُر مغز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت نے گذشتہ سال اپنے دوسو سال مکمل کر لیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اردو صحافت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ اس نے زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں اس کی تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔ 1857 ء سے ملک کی آزادی سے قبل تک ملک گیر پیمانے پر آزادی اور قومی اتحاد کیلئے جد و جہد کا سہرا اردو صحافت ہی کے سر ہے۔ اردو اخبارات ہی نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس زبان کے صحافی و مدیر مولوی محمد باقر کو جنگ آزادی میں شہید ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انھوں نے ٹیپو سلطان کی بھی صحافتی رواج کو بتاتے ہوئے کہا کہ اگر بابائے صحافت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آزادی سے قبل اردو اخبارات کے صحافیوں اور اخبارات کے مالکان و مدیران سب سے زیادہ انگریزوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے پرلیس و ضمانتیں ضبط ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجود سکین حالات میں مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے ۔ ملک کی آزادی میں آزادی مہم اور جد وجہد میں اردو صحافت کا جو رول رہا ہے وہ ایک ایسی اہل حقیت ہے کہ اس سے انکا ممکن نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ آج صحافت کا وہ دور آچکا ہے کہ اردو صحافت ملک میں تیسرے نمبر پر آچکی ہے جس پر انھوں نے مختلف وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ اس کارگاہ کا انعقاد صحافت کے رموز و فرائض اور اس کی اہمیت کو آپ کے سامنے رکھنا ہے تا کہ اردو صحافت میں پھر سے وہ نکھار و معیار آسکے اور اردو زباں کی رگوں میں صحافیوں اور ادیبوں کا خون روانی سے دوڑ سکے۔ پروفیسر احتشام احمد خان ڈین، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے بعنوان صحافت کا اثر اور اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اردو صحافت کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔ صحافت بنیادی طور پر معاشرے کی آنکھ ہوتی ہے۔ ایک اچھا صحافی حکمراں اور قوم کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ صحافت معاشرے کی امنگوں کا ترجمان ہے۔ مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے صحافت میں جو انقلاب آیا ہے اس سے صورتحال کافی بدل گئی ہے۔ آج ہزاروں اخبارات بڑی مشکل سے چلا رہے ہیں ۔ آج صحافیوں کو درپیش مسائل کا سامنا ہے۔ کئی اخبارات کو سرمایہ میسر نہیں ہونے کی وجہ سے بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں اس جدید دور میں صحافت میں اپنے کارہائے نمایاں انجام دینے کیلئے مختلف ذرائع اور مواقع کا ذکر کیا۔ اس کے علاوہ پروفیسر احتشام احمد خان نے ملک میں ٹی وی چینل (اردو) کے فروغ اور ڈیجیٹل میڈیا کے مواقع اور پیلٹس سے متعلق پروجیکٹر کے ذریعہ صحافیوں کو نہایت ہی بہتر انداز میں سمجھایا اور مختلف امور پر بات کی ۔ انھوں نے کہا کہ ٹی وی چینل پر اپنے ناظرین کی تعداد بڑھانے کیلئے کہانیوں کو دلچسپ بنانا چاہیے جیسے ہمارے پڑوی ممالک میں کیا جاتا ہے ۔ وہاں فلموں سے زیادہ ٹی وی ڈراموں (سیریل) پر توجہ دی جاتی ہے اور وہ عوام میں خوب مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ جناب مبین منور ، سابق چیرمین کرناٹک اردو اکادمی نے اپنے خطاب میں بتایا کہ صحافت بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ جمہوریت کا چھوتھا ستون ہے اور معاشرہ کیلئے سچا آئینہ ہے۔ انھوں نے صحافیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ پروفیسر ناظم الدین سرگروہ نے صحافت کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور کہا کہ صحافت ایک ایسا میدان ہے جہاں غیر جانبداری ضروری ہے اور بے پا کی اور صداقت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کارگاہ کے پہلے دن کے تیسرے پہر میں ڈاکٹر معاذالدین خان، رجسٹرار، کرناٹک اردو اکادمی نے تمام صحافیوں کو جنگل سفاری کی سیر کروائی اور جنگل سفاری سے واپسی پر فائر کمپ میں ایک ادبی محفل سجائی گئی۔ تربیتی ورکشاپ کے دوسرے دن معروف صحافی جناب افتخار احمد شریف سابق مدیر روز نامہ سالار نے اخبار کی زبان کی روانی اور جملوں میں ہونے والی غلطیوں سے صحافیوں کو آگاہ کرایا ۔ جناب لیس لیس افسر قادی ما ہر تعلیم نے اطلاعتی صحافت کا معاضد نہ تفتیشی صحافت پر پروجیکٹر کے ذریعے اپنے لکچر سے بہترین انداز میں تمام صحافیوں کو مستعفید کیا۔ اس تربیتی ورکشاپ کے آخری سیشن میں اعظم شاہد معروف کالم نگار اور ڈاکٹر معاذالدین خان، رجسٹرار کرناٹک اردو اکاڈمی نے تمام صحافیوں کو سرٹیفیکیٹ سے نوازہ۔
NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910
NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910
0 تبصرے