سترہ 17ستمبر کی حقیقت مسلمانوں کے قتل عام پر سرکاری جشن عزیز اللّٰہ سرمست
گلبرگہ 17 ستمبر ( ناز میڈیا اردو )17 ستمبر کو علاقہ حیدرآباد کرناٹک جسے اب کلیان کرناٹک کے نام سے موسوم کیا گیا ہے میں کلیان کرناٹک کی آزادی کا 76 سالہ جشن سرکاری سطح پر نہایت مہتمم بالشان پیمانے پر منایا جارہا ہے ایک ماہ تک مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے صرف علاقہ کلیان کرناٹک میں یہ جشن سرکاری سطح پر منایا جارہا ہے جبکہ تلنگانہ میں سرکاری سطح پر یوم قومی یکجہتی منایا جارہا ہے اور مرکز کی بی جے پی حکومت کی جانب سے تلنگانہ لبریشن ڈے منایا جارہا ہے 17 ستمبر جو کہ مسلمانان دکن کے ملی وقار کو ٹھیس پہنچانے کا افسوس ناک دن ہے 17 ستمبر کو علاقہ کلیان کرناٹک میں سرکاری جشن کا انعقاد انتہائی کربناک اور تکلیف دہ ہے سانحہ سقوط حیدرآباد کو 76 سال گذرنے کے باوجود اس سانحہ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے میں آج بھی پس و پیش سے کام لیا جارہا ہے اور مسلمانوں کو غدار ٹہرایا جارہا ہے مسلمانوں کے قاتلوں کو انعام و اکرام اور اعزاز دیا جارہا ہے اگر دکن میں مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کے آغاز کو سلطان علاؤ الدین خلجی کی فتح دیوگری 1294 سے شمار کیا جائے تو آج 2023 میں مسلمانانِ دکن کی تاریخ کی 7 ویں صدی کو پورے ہوئے 30 سال بیت چکے ہیں بہمنی سلطنت کے قیام 1347 سے لے کر عہد آصفجاہی کے اختتام 1948 تک دکن کے اس خطہ پر مسلمانوں کا مسلسل اقتدار رہا اس پورے عرصے میں اس خطہ پر اسلامی تہذیب و تمدن اور ان کے مظاہر کی بڑی گہری چھاپ نمایاں رہی ستمبر 1948 میں حیدرآباد دکن آزاد خودمختار مملکت آصفیہ انڈین یونین کے فوجی نام نہاد پولیس ایکشن کے نتیجہ میں نہ صرف مسلمانوں کا قتل عام مسلم خواتین کی بے حرمتی اور مساجد مسلمانوں کی املاک کی تباہی و بربادی ہوئی بلکہ دکن سے پوری مسلم تہذیب و تمدن کا جنازہ ہی اٹھ گیا سقوط مملکت آصفیہ جہاں ایک جانب مسلمانوں کیلئے ان کی اجتماعی زندگی اور قومی تاریخ کا بدترین سانحہ اور اس سے بڑھ کر ملی تاریخ کا المیہ ہے وہیں دوسری جانب اس سانحہ اور اس المیہ کی یاد کا مسلمانان دکن کے ذہنوں میں تازہ رہنا ان کے مستقبل کے اجتماعی وجود کیلئے موثر و ناگزیر ہے پولیس ایکشن کی خونریز و ظالمانہ داستان پر پردہ ڈالنے اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی منظم سازش کے تحت پولیس ایکشن کو تحریک آزادی کا نام دیتے ہوئے مسلمانوں کے قاتلوں کو مجاہدین آزادی اور مسلمانوں کے قتل عام کے یوم 17 ستمبر کو یوم جشن آزادی کلیان کرناٹک قرار دیا گیا ہے ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کیلئے کی گئی فوجی کارروائی کو تحریک آزادی کا نام دیا جانا اور ہر سال 17 ستمبر کو علاقہ کلیان کرناٹک میں سرکاری سطح پر جشن آزادی کا اہتمام کیا جانا دراصل مسلمانوں کو ذہنی اذیت پہنچانے کے مترادف ہے انڈین یونین میں علاقہ کلیان کرناٹک کے انضمام کی کارروائی پولیس ایکشن کو تحریک آزادی کا نام دیا جاکر 17 ستمبر کو جو پولیس ایکشن کا خونی دن ہے علاقہ کلیان کرناٹک میں جشن آزادی منانے کا سلسلہ گذشتہ 26 سالوں سے جاری ہے اس کیلئے فرقہ پرست بی جے پی کے ساتھ جنتا دل اور کانگریس دونوں ہی ذمہ دار ہیں کانگریس کی حکومت نے علاقہ کلیان کرناٹک میں 17 ستمبر کو سرکاری سطح پر جشن آزادی کے انعقاد کا آغاز کیا چیف منسٹر ایس ایم کرشنا نے 2 لاکھ روپئے فنڈ جاری کیا اور نام نہاد مجاہدین آزادی کی تاریخ کو کرناٹک کے تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے احکام جاری کئے 21 اکتوبر 1997 جنتا دل کی حکومت نے گلبرگہ شہر کے تماپوری سرکل پر پولیس ایکشن کے بدنام ہیرو ولبھ بھائی پٹیل کے مجسمہ کی اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ و نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی کے ہاتھوں نقاب کشائی کروائی گئی اور اس طرح علاقہ کلیان کرناٹک میں ہر سال 17 ستمبر کو ولبھ بھائی پٹیل کے مجسموں اور پورٹریٹس پر پھول مالا چڑھانے کے علاوہ قومی پرچم کشائی کی جانے لگی یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ولبھ بھائی پٹیل کے مجسمہ کی تنصیب کیلئے تماپوری سرکل کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ تماپوری سرکل مولوی عبد الکریم تماپوری کے نام سے موسوم ہے اور مولوی عبد الکریم تماپوری مجلس اتحاد المسلمین گلبرگہ کے صدر تھے
اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پولیس ایکشن کے نام پر انڈین ملٹری کا جارحانہ اقدام نظام اسٹیٹ کیخلاف نہیں بلکہ نظام اسٹیٹ کے مسلمانوں کیخلاف تھا انڈین ملٹری نے نظام اسٹیٹ پر حملے کرنے کیلئے 27 محاذ کھولے تھے جن کی زد میں حیدرآباد اسٹیٹ کے سرحدی اضلاع ہی آئے علاقہ کلیان کرناٹک اور مرہٹواڑہ کے اضلاع گلبرگہ بیدر یادگیر رائچور عثمان آباد لاتور بیڑ ناندیڑ اور نلدرگ میں مسلمانوں کے قتل و خون کا بازار گرم ہو گیا نظام اسٹیٹ پر انڈین یونین کی فوجی یلغار کو بعد میں حکومت ہند نے پولیس ایکشن کا نام دیا حالانکہ یہ ملٹری ایکشن تھا لیکن تحقیقات سے بچنے کیلئے اس انسانیت سوز یلغار کو پولیس ایکشن کا نام دیا گیا 1947 میں 13 تا 17 ستمبر 5 روزہ جنگ ہوئی اور جنگ بھی ایسی کہ فوج کا مقابلہ فوج نے نہیں کیا بلکہ انڈین ملٹری نے معصوم شہریوں اور آبادیوں پر یلغار کیا پولیس ایکشن کے دوران مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان قتل عام مرہٹواڑہ میں عثمان آباد لاتور بیڑ نلدرگ اور کلیان کرناٹک میں یادگیر ضلع کے شاہ پور سگر گوگی شوراپور یادگیر گرمٹکال گلبرگہ ضلع کے الند افضل پور جیورگی اور گلبرگہ شہر میں ہوا ان مقامات پر پیش آئے مسلمانوں کے قتل عام آور مسلم خواتین کی بے حرمتی کے واقعات آج بھی رونگھٹے کھڑے کردیتے ہیں عثمان آباد کی وہ گھاٹیاں آج بھی موجود ہیں جہاں لا تعداد مسلمانوں کو قطار میں ٹہرا کر انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا شوراپور کے مسلمانوں کے ہاتھ رسیوں سے باندھ کر انہیں جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے لایا گیا جہاں بیک وقت تلواروں اور کلہاڑیوں سے ان کی گردنیں اڑائی گئیں شاہ پور کا قدیم بس اسٹانڈ اور تعلقہ پنچایت کا کامپلکس آج جہاں واقع ہے وہ میدان مسلمانوں کی قتل گاہ بن گیا تھا جہاں دور دور تک نعشوں کے انبار لگا دیئے گئے تھے شاہ پور تعلقہ کے سگر میں ایک اور ایکشن بھی ہوا جسے آج بھی عمر ایکشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں سگر کے جری مسلمان محمد عمر کو گھیر کر شہید کیا گیا بیدر اور اس کے تعلقہ جات میں مسلمانوں کا قتل عام اس قدر ہوا کہ صرف زمین ہی سرخ نہیں ہوئی بلکہ مانجرا ندی میں مسلمانوں کا خون اور پانی ایک ہو کر بہنے لگے ندی نالوں میں مسلمانوں کا خون اور نعشیں بہتے رہے الغرض کلیان کرناٹک کے بیدر گلبرگہ یادگیر اضلاع میں مسلمانوں کی نہ جان محفوظ تھی اور نہ عزت و آبرو ان اضلاع میں کوئی خاندان ایسا نہیں ہے جس کا کوئی نہ کوئی فرد پولیس ایکشن میں شہید نہ ہوا ہو قوم پرست روزنامہ رعیت حیدرآباد کے ایڈیٹر نرسنگ راؤ نے اپنی تحریر کردہ ڈائری جو اخبارات میں شائع ہوئی میں لکھا کہ 15 مہینوں میں رضاکاروں نے اتنا نہیں کیا جتنی 15دنوں میں فوج اور غنڈوں نے تباہی لائی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے مولانا ابوالکلام آزاد کے اصرار پر پولیس ایکشن کے واقعات کی تحقیقات کیلئے پنڈت سندر لال کی سرکردگی میں 3 رکنی کمیشن قائم کیا پنڈت سندر لال نے علاقہ حیدرآباد کرناٹک ( کلیان کرناٹک) اور مرہٹواڑہ کے اضلاع کا دورہ اور مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ میں نے باولیوں کو خواتین کی نعشوں سے بھرا ہوا پایا ضلع بیدر اور یادگیر کے ندی نالوں میں انسانوں کا خون اور پانی ایک ہوکر کئی دنوں تک بہتا رہا ہر جگہ بدحال بیوائیں یتیم بچے اور اجڑی بستیاں نظر آئیں پنڈت سندر لال نے یہ بھی لکھا کہ میں نے ہر طرف نعشیں ہی نعشیں دیکھیں اور پنڈت جواہر لال نہرو کو لکھا کہ کیا تم نے مجھے نعشوں کو شمار کرنے کیلئے بھیجا ہے ؟ مسلمانوں کی اس قدر بھیانک تباہی و بربادی کی ظالمانہ کارروائی کو جدو جہد آزادی قرار دینا اور پھر اس یوم پر سرکاری جشن منانا مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے پولیس ایکشن کی پوری ظالمانہ تاریخ کو ہی بدل کر رکھ دیا گیا ہے افسوس کہ مسلمان بھی اس نام نہاد جشن آزادی میں حصہ لے رہے ہیں اور جوش و خروش سے یہ جشن منارہے ہیں
NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910
0 تبصرے