بیدر میں جماعت ِ اسلامی کے ”حقوق انسانی“ موضوع پر سمپوزیم میں حامد محمد خان و دیگر کاخطاب

بیدر میں جماعت ِ اسلامی کے ”حقوق انسانی“ موضوع پر سمپوزیم میں حامد محمد خان و دیگر کاخطاب


بیدر: 12دسمبر( ناز میڈیا اردو ) روئے زمین پر صرف مذہبِ اسلام ہی عظمتِ انسانی، آزادی ئ ضمیر، تحفظِ انسانیت اور حقوقِ انسانی کا علمبردارہے،جس طرح  مذہبِ اسلام میں حقوقِ انسانی پر واضح تعلیمات اور احکامات ملتی ہیں ویسی کسی اور مذہب میں نہیں ملتیں۔ 

عام طور پر مذہب کے سلسلے میں لوگوں کا یہ تصور، تعریف اور یہ تشریح پائی جاتی ہے کہ مذہب اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کا معاملہ ہے۔  مذہب کی تعریف عام طور پریہی کی جاتی ہے، لیکن اسلام کے سلسلے میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔  اس لیے کہ اسلام کے اندر جہاں پر اللہ اور بندے کے درمیان میں تعلق ہے تو بندوں اور بندوں کے درمیان میں بھی ایک تعلق اور حقوق کی تعلیمات اور احکامات ہیں۔ جس میں حقوق اللہ اورحقوق العباد دونوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے مذہبِ اسلام کو عام مذاہب کی طرح اس کی تشریح کرنا  ہرگز مناسب نہیں، چونکہ اسلام نے انسانوں کو جو بنیادی حقوق عطا کیے ہیں، ان میں سے سب سے پہلا حق تحفظ جان کا ہے۔  جب انسان زندہ رہیں گے تو ہی حقوق کی بات ہوگی۔ اس لیے حرمت جان میں کوئی آدمی کسی آدمی کو قتل نہیں کر سکتا۔  قران کہتا ہے کہ اگر ایساشخص جو نہ تو کسی کا قتل کیا نہ تو زمین کے اوپر فساد برپا کیا اور اس فرد کا کسی نے قتل کر دیا تواس نے گویا کہ سارے انسانوں کا قتل کر دیا۔ ایک آدمی کا ناحق قتل سیویر قسم کا کرائم(خطرناک جرم) ہے، جو ناقابلِ معافی ہے۔  اور کہا گیا کہ جس نے کسی ایک زندگی (چاہے وہ پانی، آگ، چھری،گولی،بندوق،  بم، ہتھیارسے) بچائی تو گویا اس نے سارے انسانوں کی زندگی بچائی۔  چونکہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ان خیالات کا اظہار  جناب حامد محمد خان صاحب سابق امیر حلقہ جماعت ِ اسلامی ہند، تلنگانہ نے یہاں بیدر میں جماعت ِ اسلامی ہند، شہر بیدرکے زیر اہتمام ”حقوق انسانی“ موضوع پر سمپوزیم کے صدارتی خطاب میں کیا۔  موصوف نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے مختلف قسم کی کوششیں وں کے نتیجہ میں بالاخر 10 دسمبر 1948 کو ایک اقوام متحدہ نے ایک منشور جاری کیا اور جنرل اسمبلی کے اندر جب پیش کیا گیا تو صرف 48 ممالک نے اس کو اور باقی کے8 ممالک نے اس کا واک آؤٹ کیا جس کے اندر روس بھی تھا۔  عمل درآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے اور تحفظ انسانی حقوق کے لیے کمیشن برائے انسانی حقوق بنایا گیا،  ہمارے ملک میں بھی انسانی حقوق کمیشن ہے لیکن اس کی کیا کارکردگی ہے کبھی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے اندر صرف خواہشات ہیں اس کے اندر سینکشن اتھارٹی نہیں پائی جاتی، اس کے اندر کسی قسم کی جواب دہی نہیں پائی جاتی۔خواہشات ہی خواہشات ہیں۔  یاد رہے حقوقِ انسانی کو کوئی انسان متعین نہیں کر سکتا انسانی حقوق کو متعین کرنے والا صرف انسان کو پیدا کرنے والا ہی ہو سکتا ہے اور ہم نے جب کبھی اپنے حقوق مقرر یا متعین کرنے کی کوشش کی ٹھوکریں کھائیں اور آج بھی ٹھوکر یں کھا رہے ہیں۔ امریکہ،برطانیہ دنیا میں ’حقوقِ انسانی‘ کے  چمپیئن اور دعویداری کرتے ہیں، جبکہ غزہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں مرتکب اور مجرم ہیں۔موصوف نے کہا کہ ہمارے ملک بھارت میں بھی  انسانی حقوق کی پامالی اور تحفظِ جان کے حالات دگر گوں اور انتہائی تشویشناک ہیں،خواتین کے خلاف میں ہر 32 منٹ میں ایک زنا کا واقعہ ہوتا ہے اس کی شرح میں مسلسل1.8 کااضافہ  ہونے لگا ہے،  جرم کرنے والے 39  فیصد لوگ پڑوسی  یا قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔  آج بھی دلہنوں کو جلانے کے واقعات میں 1.28 فیصد اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے،  دلہنوں کو جلا یا جارہاہے۔  ہر 17 منٹ کے اندر ایک بچی جنسی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے اور ہر 10 منٹ میں ایک اغوا ہو جاتا ہے، 52.7  فیصد قتل ِ جنین کے واقعات پائے جاتے ہیں۔ذات پات کی تفریق آج بھی موجود ہے،  46 مقامات گجرات کے اندر ایسے ہیں جہاں پر دلتوں کے پانی لینے کے مقامات بالکل الگ ہیں۔ پولیس جس کو ہم اپنا رکشکھ بنایاتھا وہ اب  بھکشکھ بنا ہوا ہے۔ حقوق انسانی کمیشن کے اندر موجود دستیاب ڈیٹاکے مطابق ہندوستان کے اندر جیلوں میں آج کی تاریخ میں 4 لاکھ 4 ہزار 9 لوگ جیلوں کے اندر بند ہیں، جن میں سے 2 لاکھ 23 ہزار لوگ ایسے ہیں جن پرابھی تک ٹرائل تک نہیں ہوا اور وہ کسی جرم کے بغیر جیلوں کے اندر بند پڑے ہوئے ہیں۔ اور پھر فرضی انکاوئنٹر، جھڑپیں اور پولیس لاک اپ کے اندرکئی لوگ مار دیئے جاتے ہیں۔ موصوف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ٹیرریزم کیوں پیدا ہوتا ہے؟  انصاف کی خاطر بدلہ کی بھاؤنا کو تو فلموں میں بھی بتایا جاتا ہے کہ کوئی ہیرو ہے جسکے بچپن میں اس کے باپ کو کسی نے مارا اور وہ بدلہ لینے کے لیے نکلا اور پھر اس کو مار دیا۔ یاد رکھیے انصاف میں تاخیر کے نتیجے میں ہی ردعمل کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔  وقت پر انصاف انسانی فطرت میں شامل اور مطلوب ہے۔  یہاں عدالتوں سے انصاف کے بجائے صرف تاریخ پر تاریخ ملتی ہے۔  عمر خالد 13 مرتبہ سے زائد سپریم کورٹ حاضر ہوا ہے اور اس کو کیا ملا؟  پھر تاریخ میں ابھی تک الزام ثابت نہیں ہوا۔  ملک کی عدالتوں کے اندر جو پینڈنگ کیسز پائے جاتے ہیں وہ ایک اندازے کے مطابق 35 ملین ہیں، موجودہ  جتنے ججز،وکلااور انفراسٹرکچر ہے وہ سب کا اگر مسلسل استعمال کیا جائے تو تمام جو پینڈنگ فیصلے ہیں اس کو فیصل ہونے کے لیے 350 سال چاہیے یا لگ جائیں گے۔  انصاف میں تاخیر بھی انصاف نہ ملنے کے برابر ہے۔  ملک  میں فرقہ وارانہ فسادات اور تعصب، ماب لنچگ کے واقعات روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔  یہ سب حقوقِ انسانی کی پامالیاں ہی ہیں جو آئے دن بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔  موصوف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہر انسان کو زمین پر رہنے کا حق ہے۔  اس طرح ایک انسان کو قتل کرنا انسانیت کا قتل ہے۔  ماں کے پیٹ میں پروان چڑھنے والے بچے کی زندگی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ انسانی زندگی، جنین کا قتل ایک گھناؤنا جرم ہے۔  انسان کو اپنی جان لینے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے۔ انبیاء صرف خدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے ذمہ دار تھے۔  خدا کے پیغام کو قبول کرنے کے لیے کسی پر دباؤ نہیں ڈالا گیا۔  انہوں نے کہا کہ مذہب نے بھی انسانی اظہار کی آزادی کو اہمیت دی ہے۔  تمام انسان برابر ہیں۔ مذہب، ذات، نسل، رنگ کی بنیاد پر امتیاز قابل قبول نہیں۔  اس کے باوجود مسلمانوں کو اچھوت کے طور پر دیکھا جانا تشویشناک ہے۔  موصوف نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ حقوقِ انسانی کی پاسداری کے لیے ایمان کی صورت میں عقیدے اور انسانی اخلاق اور ہمدردی کی ضرورت ہے اور یہ چیز مذہبی اعتقادات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے،  جس سے انشاء اللہ ہیومن رائٹس کاایک نہ ایک دن ہمارے ملک کے اندر اور پوری دنیامیں اس کا غلغلہ ہوگا۔ سمپوزیم میں اظہار خیال کرنے والے معزز مقررین میں شری بی کرشنپا وکیل سابق صدر ضلع بار اسوسی ایشن بیدر، نے اپنے خطاب میں کہا کہ انسانی حقوق کے بارے میں سب کو جاننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ ڈاکٹر جگناتھ ہیباڑے ڈائر کٹر کرناٹک جانپد اسائیہ یونیورسٹی پی جی سنٹر بیدر،  نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام مذاہب کے عظیم انسانوں اور پیغمبروں نے انسانی اتحاد کو ترجیح دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک جامع معاشرے کی تعمیر کے لیے سخت محنت کی۔ شری بابو راؤ ہنا وکیل سینئر لیڈرکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے اپنے خطاب میں کہا کہ افسوس کا اظہار کیا کہ حکومتی سطح پر فرقہ پرستی، کارپوریٹ مفاداتی انتظامیہ اور عوام دشمن قوانین کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔  شہ نشین پر مہمانان خصوصی کی حیثیت سے شری کشن راؤ دینے صاحب موظف ٹیچر،  رفیق احمد صاحب گادگی ناظم علاقہ جماعت ِ اسلامی ہند،کلبرگی،  مولانا محمد مونس کرمانی صاحب صدر مجلس العلماء بیدر،  محمد اقبال احمد ناظم ضلع جماعتِ اسلامی بیدر،  عنایت الرحمان سندھے سابق افسر محکمہ تعلیمات،  محمد سیف الدین صدر مقامی ایس آئی او بیدر شریکِ سمپوزیم رہے۔  اس موقعہ پر ویربھدرپا اپن کو تہنیت سے نوازا گیا۔ محمد معظم امیر مقامی جماعت ِ اسلامی ہند،شہربیدر نے افتتاحی کلمات پیش کیا۔ جس میں انہوں نے سمپوزیم کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا۔  محمد ثنااللہ صدیقی کی قرات ِ کلام پاک سے سمپوزیم کاآغاز ہوا، جس کی کنڑی زبان میں ترجمانی محمد جاوید احمدنے کی۔  اختتام پر چائے اور ریفریش مینٹ کا اہتمام کیا گیا تھا۔  محمد عارف الدین نے تشکری کلمات ادا کیے۔  نظامت کے فرائض محمد نظام الدین نے انجام دئیے۔ حقوقِ انسانی پر منعقدہ اس سمپوزیم میں بلا تفریق مذہب وملت مردوخواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ 


NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910



NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910


NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910



NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910

NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910


NEW & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910

NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910

NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910



-


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے