سنبھل جامع مسجد سروے کے دوران ہنگامہ، جھڑپ میں 3 نوجوان جاںبحق
سنبھل25 نومبر (اتر پردیش )اتر پردیش کے ضلع سنبھل میں جامع مسجد میں عدالت کے حکم پر کیے جانے والے سروے کے دوران آج زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے نام نعمان، بلال اور نعیم ہیں۔ واقعے کے دوران دو خواتین سمیت کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خواتین چھت سے پتھراؤ کر رہی تھیں۔پولیس سب انسپکٹر وکاس نروال نے بتایا کہ صبح کے وقت تقریباً 300 افراد پر مشتمل ہجوم جمع ہوگیا تھا جنہوں نے پولیس کو نشانہ بنایا۔ اس ہنگامے میں سب انسپکٹر کے پیر میں بھی چوٹ آئی۔رپورٹ کے مطابق ہنگامہ اس وقت شروع ہوا جب عدالت کے حکم پر سروے ٹیم جامع مسجد پہنچی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ مقامی افراد نے پتھراؤ کیا جس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ احتجاج کے دوران مظاہرین نے آگ زنی بھی کی جس سے کئی گاڑیاں جل گئیں۔ ایس پی کرشن کمار نے کہا کہ پتھراؤ اور دیگر تخریبی کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف بشمول این ایس اے کے تحت مقدمات، سخت کارروائی کی جائے گی۔صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ بند کردیا گیا ہے جبکہ مرادآباد کے ڈی آئی جی منی راج اور بریلی زون کے اے ڈی جی رمیت شرما کو موقع پر تعینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ پی اے سی کی تین کمپنیاں بھی تعینات کر دی گئی ہیں۔سروے کا عمل صبح ساڑھے سات بجے شروع ہو کر دس بجے مکمل ہوا۔ ایڈووکیٹ کمشنر نے جامع مسجد کا سروے مکمل کر لیا جس کی ویڈیوگرافی اور فوٹوگرافی کی گئی۔ رپورٹ 29 نومبر کو عدالت میں پیش کی جائے گی۔ہندو فریق نے دعویٰ کیا کہ یہ مسجد ایک قدیم ہندو مندر کے مقام پر بنائی گئی ہے جس پر عدالت نے دوبارہ سروے کا حکم دیا تھا۔ سروے کا کام اتوار کو عدالت کے حکم پر سنبھل کی جامع مسجد میں دوسری بار شروع ہوا لیکن اسی دوران شر پسند عناصر نے پتھراؤ شروع کر دیا جس کے بعد پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے استعمال کیے اور ہلکی طاقت کا استعمال کیا۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ کئی افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور تشدد کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے سڑک کے کنارے کھڑی موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی۔مقامی عدالت کے حکم پر گزشتہ منگل کو جامع مسجد کا سروے کیا گیا تھا جس کے بعد گزشتہ چند دنوں سے سنبھل میں کشیدگی برقرار ہے۔درحقیقت مقامی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سے قبل اس جگہ ہری ہر مندر تھا جہاں جامع مسجد واقع ہے۔مقامی انتظامیہ کے مطابق متنازعہ مقام پر عدالت کے حکم کے تحت کمیشن ایڈوکیٹ نے دوسری بار آج صبح 7 بجے کے قریب سروے کا کام شروع کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ صبح کے وقت کوئی نماز نہیں ہوتی۔ پولیس نے صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے ہلکی طاقت کا استعمال کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ ڈرون اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے لوگوں کی شناخت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پتھراؤ سے کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں ۔جن لوگوں نے پتھراؤ کیا اور انہیں اکسایا ان کی شناخت ہو جائے گی اور ان پر کارروائی کی جائے گی۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راجندر پیسیا نے کہا کہ ہم نے پتھراؤ کے واقعہ کے سلسلے میں جن افراد کو حراست میں لیا ہے ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ شرپسندوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔سنبھل میں پتھراؤ اور آتش زنی پر ریاستی ڈائریکٹر جنرل آف پولیس پرشانت کمار نے بتایا کہ سنبھل کی صورتحال قابو میں ہے اور ہم صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔مقامی پولیس اور انتظامیہ کے تمام اہلکار موقع پر موجود ہیں۔سنبھل میں سروے سائٹ کے قریب نوجوانوں کی مبینہ طور پر پولیس پر پتھراؤ کی ویڈیوز منظر عام پر آ گئی ہیں۔کیس میں سپریم کورٹ کے وکیل اور درخواست گزار وشنو شنکر جین نے صحافیوں کو بتایا کہ عدالت کے حکم پر صبح 7.30 بجے سے صبح 10 بجے تک سروے کا کام مکمل کیا گیا اور وہاں ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی مکمل ہو چکی تھی اور اب ایڈووکیٹ کمشنر 29 نومبر تک عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔جین نے گزشتہ منگل کو کہا تھا کہ مسجد سے متعلق پٹیشن میں وسطی اور اتر پردیش کی حکومتوں مسجد کمیٹی اور ضلع مجسٹریٹ سمبھل کو فریق بنایا گیا ہے۔وشنو شنکر جین اور ان کے والد ہری شنکر جین نے عبادت گاہوں سے متعلق متعدد معاملات میں ہندو فریق کی نمائندگی کی ہے بشمول گیانواپی مسجد'کاشی وشوناتھ مندر تنازعہ وغیرہ۔ عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ بابر نامہ اور آئینہ ٔ اکبری کتاب میں اس جگہ کا ذکر ہے جہاں آج جامع مسجد ہے۔ وہاںہری ہر مندر ہوا کرتا تھا۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس مندر کو مغل بادشاہ بابر نے 1529 میں منہدم کر دیا تھا۔سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق نے اس پیش رفت پر اعتراض کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سمبھل کی جامع مسجد تاریخی اور بہت پرانی ہے۔ سپریم کورٹ نے 1991 میں ایک حکم نامے میں کہا تھا کہ 1947 سے جو بھی مذہبی مقامات کسی بھی حالت میں ہوں وہ اپنی جگہ پر رہیں گے۔
0 تبصرے