مسلم پرسنل لا بورڈ کا بنگلور اجلاس اور سدرامیا حکومت کا وقف مخالف اقدام عزیز اللّٰہ سرمست
گلبرگہ 23 نومبر ( ناز میڈیا اردو )کو بنگلور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا 29 واں اجلاس منعقد ہورہا ہے اجلاس کے دوسرے دن 24 نومبر کو تحفظ شریعت و اوقاف کے زیر عنوان جلسہ عام کا انعقاد ہوگا اس جلسہ عام کو کامیاب بنانے اور اس میں ریاست بھر سے مسلمانوں کی بھاری تعداد میں شرکت کو یقینی بنانے کیلئے ریاست کے تمام اضلاع میں مشاورتی اجلاس اور عوامی بیداری جلسے منعقد کئے جارہے ہیں اس سلسلہ میں گلبرگہ میں 11 نومبر کو مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں علما حفاظ آئمہ مساجد کمیٹیوں کے ذمہ داران مسلم ایڈوکیٹس اور دانشوران نے شرکت کی اس اجلاس میں مرکزی حکومت کے مجوزہ وقف ترمیمی بل پر تقاریر ہوئیں اور 19 نومبر کو ہفت گنبد کے میدان میں تحفظ شریعت و اوقاف کے زیر عنوان جلسہ عام منعقد کرنے کا فیصلہ لیا گیا ظاہر ہے اس جلسے میں بھی مرکزی حکومت کے مجوزہ وقف ترمیمی بل پر ہی تقاریر ہوں گی اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ تحفظ اوقاف کو لے کر غیر معمولی سنجیدہ ہے ایسے میں سوال یہ ہے کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل کیخلاف مرکز کی بی جے پی حکومت کی پرزور مخالفت کرنے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داران اور کرناٹک کے علما و مسلم سیاسی قائدین کرناٹک کی سیکولر کانگریس حکومت کے وقف قوانین مخالف اقدام پر خاموش کیوں ہیں ؟ تحفظ اوقاف کے معاملے میں دوہرے معیارات کیوں اپنائے جارہے ہیں ؟ کسانوں کے زیر قبضہ ہزاروں ایکڑ وقف اراضیات کو واپس نہ لینے کے چیف منسٹر سدرامیا کے وقف مخالف فیصلہ کیخلاف گلبرگہ میں 11 نومبر کو منعقدہ کل جماعتی اتحاد کے مشاورتی اجلاس میں کسی نے کوئی بیان نہیں دیا اور 19 نومبر کو ہفت گنبد گلبرگہ میں منعقد ہونے والے جلسہ عام میں بھی چیف منسٹر سدرامیا کے وقف مخالف فیصلہ کیخلاف کوئی بیان کے آنے کی توقع نہیں ہے بنگلور میں منعقد شدنی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس اور جلسہ عام موجودہ حالات میں اور موضوع کے اعتبار سے اہم ترین ہے لیکن کیا اس اجلاس اور دوسرے دن منعقد ہونے والے جلسہ عام میں سدرامیا حکومت کے وقف قوانین مخالف اقدام پر کوئی جراتمندانہ فیصلہ لئے جانے کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکزی حکومت کا مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف اداروں کو سبوتاژ کرنے اور وقف املاک مسلمانوں سے چھین لینے کی منظم سازش ہے اور مسلمانوں کیلئے یہ بل ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتا لیکن کرناٹک کی سدرامیا حکومت نے کسانوں کے مقبوضہ وقف اراضیات کو واپس نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے وقف معاملات میں کھلی مداخلت کی ہے لیکن اس سنگین نوعیت کے مسئلہ کو کرناٹک کے علما و مسلم سیاسی قائدین پس پشت ڈال رہے ہیں کرناٹک میں وقف املاک چھین لئے جانے پر مسلم قائدین تنظیموں اور علما کی جانب سے کسی ردعمل کا اظہار نہ کئے جانے سے ظاہر ہورہا ہے کہ مرکزی حکومت کے وقف ترمیمی بل کے نفاذ کے بعد وقف املاک چھین لئے جانے پر بھی کسی کی کوئی آواز نہیں اٹھے گی ایسی صورت میں مرکزی حکومت کے مجوزہ وقف ترمیمی بل کیخلاف مشاورتی اجلاسوں اور عوامی بیداری جلسوں کی ضرورت کیا ہے ؟۔ کرناٹک اسٹیٹ وقف بورڈ نے بیجاپور میں مقبوضہ وقف اراضیات کو دوبارہ وقف املاک میں شامل کرنے کیلئے کسانوں کو نوٹسیں جاری کئے تھے لیکن بی جے پی اور ہندو تنظیموں کی جانب سے اس معاملے کو لے کر کانگریس حکومت کیخلاف ہندو مخالف ہونے کا زبردست پروپیگنڈہ کیا گیا جس سے خائف ہوکر چیف منسٹر سدرامیا نے کرناٹک وقف بورڈ کی جانب سے کسانوں کو دی گئیں نوٹسیں فوری واپس لینے کے احکام جاری کئے کسانوں کے قبضے میں جو اراضیات ہیں وہ خالصتاً وقف کی ملکیت ہیں نہ کہ سرکاری اراضیات ، ایسے میں کسانوں کے قبضے سے وقف اراضیات واپس نہ لینے کا فیصلہ کرنے والے چیف منسٹر سدرامیا کون ہوتے ہیں جبکہ خود کرناٹک وقف بورڈ بھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا کیونکہ وقف اراضی یا املاک کا منشائے وقف تبدیل یا ترمیم کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے کرناٹک اسٹیٹ وقف بورڈ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے اور اس کے قوانین بھی علیحدہ ہیں ان قوانین کو نافذ کرنے کے اختیارات صرف اور صرف وقف بورڈ کو حاصل ہیں ان قوانین میں ردوبدل کرنے کے اختیارات نہ تو وزیر وقف کو حاصل ہیں اور نہ ہی چیف منسٹر کو اور اگر وقف اراضی یا املاک پر کسی نے قبضہ کرلیا ہے تو وقف بورڈ چاہ کر بھی اس اراضی یا املاک کو منشائے وقف کیخلاف کسی کو نہیں دے سکتا اور نہ ہی منتقل کرسکتا ہے چیف منسٹر کرناٹک سدرامیا کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ وقف اراضیات پر کسانوں کے قبضے برخواست کرنے میں کرناٹک وقف بورڈ سے تعاون کرتے لیکن وقف اراضیات پر کسانوں کے قبضے کو برخواست نہ کرنے کا فیصلہ لے کر چیف منسٹر سدرامیا فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے جھک گئے سدرامیا نے نہ صرف وقف قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے بلکہ مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے کرناٹک کے مسلمانوں کو یہ حقیقت سمجھ لینا چاہیئے کہ چیف منسٹر سدرامیا نے کسان مخالف کہلانے کے بجائے مسلمان مخالف کہلانے کو ترجیح دی ہے وزیر وقف و اقلیتی بہبود بی زیڈ ضمیر احمد خان نے بیلگام بیدر گلبرگہ اور بیجاپور میں وقف عدالتیں منعقد کرتے ہوئے وقف املاک پر ہوئے ناجائز قبضے برخواست کرنے کیلئے جو بڑی بڑی ڈینگیں ہانکی تھیں سدرامیا نے ایک ہی جھٹکے میں ان کی ہوا نکال دی آخرت میں دامن پکڑنے کی باتیں کرنے والے ضمیر احمد خان وقف اراضیات پر ناجائز قبضے برخواست نہ کرنے کے چیف منسٹر سدرامیا کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرسکے کانگریس نے اقتدار میں آنے کے بعد اہم مسلم مسائل کو حل کرنے کا مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا لیکن سیکولرزم اور آہندہ کے اصولوں پر قائم رہنے کا دعویٰ کرنے والی سدرامیا حکومت اس خوف سے کہ کہیں اس کی ہندو مخالف امیج نہ بنے مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کو پس پشت ڈالنے کو ترجیح دے رہی ہے سدرامیا حکومت حجاب پر پابندی کو برخواست کرنے ،گاؤکشی پر پابندی کے قانون میں ترمیم کرنے ، مسلمانوں کو 2B ریزرویشن میں کٹوتی اور دیگر مسلم مسائل پر بار بار یوٹرن لے رہی ہے مسلمانوں نے کرناٹک میں بی جے پی کو اس لئے اقتدار سے ہٹایا تھا کہ وہ ان کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی بھرپور حمایت سے برسر اقتدار آنے والی کانگریس حکومت بی جے پی کے خوف سے مسلم مفادات کا تحفظ کرنے سے منھ موڑ رہی ہے کرناٹک اسمبلی کے اسپیکر یوٹی قادر کرناٹک قانون ساز کونسل کے چیف وہیپ سلیم احمد وزراء بی زیڈ ضمیر احمد خان ، رحیم خان چیف منسٹر کے پولٹیکل سیکریٹری نصیر احمد ایم ایل ایز عبد الجبار ، این اے حارث ، تنویر سیٹھ ، رضوان ارشد ، کنیز فاطمہ ، آصف سیٹھ ، اقبال حسین اور ایم ایل سی بلقیس بانو مسلمانوں کے ساتھ کانگریس حکومت کی منافقت پر چپی سادھے ہوئے ہیں وقف اراضیات ، وقف بورڈ کو واپس نہ کرنے کے سدرامیا حکومت کے فیصلے کیخلاف بھی کانگریس حکومت میں شامل ان تمام مسلم چہروں نے زبان کھولنے کی جرات نہیں کی جس سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس پارٹی اور حکومت میں موجود تمام مسلم چہروں کی شوبوائز سے زیادہ حیثیت نہیں ہے
وقف اراضیات وقف بورڈ کو واپس کرنے نوٹسوں کی اجرائی کیخلاف بی جے پی کے علاوہ مٹھادیشوں نے زبردست احتجاج منظم کیا مسلمانوں کیخلاف کھلی اشتعال انگیزی کی گئی وقف قوانین کو ملک کیلئے سخت مضر اور ہندو مخالف قرار دیتے ہوئے وقف قوانین کو برخواست کرنے کا پرزور مطالبہ کیا جارہا ہے ماشال تعلقہ افضلپور ضلع گلبرگہ کے مرلا آرادھیا شیوآچاریہ نے احتجاجی مظاہرہ کے دوران بیان دیا کہ ہندو مخالف وقف قوانین کو منسوخ کروانے کیلئے تمام مٹھادیشوں کو متحد ہونے اور جان دینے یا جان لینے کیلئے تیار رہنا ہوگا اس شیوآچاریہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں اسکولوں میں اپنے بچوں کو قلم کے بجائے تلوار دینی ہوگی افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس بدترین وقف مخالف رویہ اور کھلی اشتعال انگیزی پر مسلم تنظیموں اور علما و قائدین کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اسمبلی الیکشن میں مسلم سیٹوں کو بچانے اور کانگریس کی حمایت میں جو علما و دانشوران اور تنظیمیں سرگرم تھے وہ تمام اب تحفظ شریعت و اوقاف کے نام پر مشاورتی اجلاس اور عوامی بیداری جلسوں کے انعقاد میں سرگرم نظر آرہے ہیں لیکن یہ کانگریس کی سدرامیا حکومت کی جانب سے وقف مخالف رویہ اپنانے اور مسلمانوں سے کی جارہی مسلسل وعدہ خلافی پر زبان کھولنے تیار نہیں ہیں ایسا لگتا ہے کہ مشاورت اور جلسوں کے انعقاد کے ماسوا ان کے پاس کوئی موثر اور نتیجہ خیز حکمت عملی نہیں ہے گویا ہم اپنے اسلاف کی طرح کشتیاں جلانے والے نہیں بلکہ کشتیاں سنبھالنے والے بن گئے ہیں
0 تبصرے