ہم ہوں گے کامیاب: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، دوران احتجاج دل شکن نعروں سے گریز کا مشورہ
حیدرآباد۔13 اپریل ( ایجنسی)۔صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا خالدسیف اللہ رحمانی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی پروگرام کے دوران نعرے لگاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ دوسرے مذاہب کے افراد کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔دوسرے مذاہب کے افراد کی دل شکنی کے نعرے نہ لگائے جائیں، اس کے بجائے انہیں ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگانا چاہئے۔
آج آل انڈیاملی کونسل تلنگانہ کی جانب سے نہرو آڈیٹوریم مدینہ ایجوکیشن سنٹرنامپلی میں وقف کا تحفظ مستقبل کے چالینجس اور لائحہ عمل کے موضوع پر خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا۔اجلاس کی صدارت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی نے کی۔مولاناخالد سیف اللہ رحمانی نے کہاکہ مرکز کی بی جے پی حکومت کی جانب سے وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں منظور کیا گیا۔ اس کا مقصد ملک میں وقف کی جائیدادوں کو ہڑپنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں رات 3 بجے تک اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ نے متحد ہوکر اس مباحث میں حصہ لیا وہ ان تمام سیکولر ہندو ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس ملک کے دستور کی حفاظت میں پیش پیش رہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون ملک کے دستور اور مذہبی اقدار پر شخصی حملہ ہے، ہم کو آپس میں اتحاد اور بھائی چارہ اور اعتدال اور میانہ روی اور ڈسپلن کے ساتھ لڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے خلاف تمام مکاتب فکر اور تنظیمیں متحد ہوئی ہیں۔ اس طرح کا اتحاد ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی رہنمائی کے بغیر مسلم نوجوانوں کو احتجاجی پروگرام میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ مسلم نوجوانوں کو صرف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے احتجاجی پروگراموں میں ہی حصہ لینا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مخالفین مسلمان کے پاس 3500 مساجد کی فہرست ہے جو ان مساجد کو مندر پر تعمیر کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے سنبھل اترپردیش کی مسجد کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ ہم ہی ضرور کامیاب ہوں گے' ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ قسمت کیفیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں میں ہوتے ہیں۔ہم کو ضرور کامیابی ملے گی۔ رکن پارلیمنٹ سہارنپور عمران مسعود نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے وقف ترمیمی بل کی پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد پسماندہ مسلم خواتین اور دیگر کو مالی سہولتیں فراہم کئے جانے کا جھوٹا بیان دیا ہے جبکہ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد مسلم طلبہ بالخصوص لڑکیوں کو گزشتہ 8 سال سے تعلیمی اسکالرشپ نہیں دی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے ملک کی اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لئے بجٹ میں جو رقم مختص کی ہے وہ تلنگانہ کے بجٹ میں مختص کردہ رقم سے بھی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون سے مساجد،خانقاہیں، درگاہیں، عیدگاہ اور قبرستان کی اراضی محفوظ نہیں ہے۔اگر مسجد ہی نہیں رہے گی تو مسلمان نماز کہاں ادا کریں گے؟ اور قبرستان نہ ہوں گے تو لاشوں کی تدفین کہاں کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ وقف قانون ملک کے دستور اور مذہب اسلام کے خلاف ہے ہم اس مسئلے کو حل کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے ہیں۔ ہم کو ضرور کامیابی حاصل ہوگی۔ انہوں نے تمام مسلم تنظیموں اور درگاہ کے متولیوں اور نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ آن لائن رٹ پٹیشن داخل کریں۔
صدر نشین تلنگانہ وقف بورڈ سید عظمت اللہ حسینی نے کہا کہ دنیا مسلمانوں کے لئے آزمائش کا مقام ہے۔ انبیاء کرام سے آج تک ہم پر ہر طریقے سے تکالیف آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی۔ ہم کو متحد ہوکر ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت گزشتہ 10 سال سے کبھی تین طلاق' کبھی این آر سی اور اس طرح کئی طریقے سے مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہونچارہی ہے۔ ہم کو ان حالات کا مقابلہ پرامن طریقے سے احتجاج کرکے کرنا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ایک سال قبل آر ایس ایس کی لیباریٹری میں وقف ترمیمی بل کا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ مرکزکی بی جے پی حکومت نے اس پر عمل آوری کی ہے۔ اس موقع پر بی آرایس لیڈر رحیم اللہ خان نیازی، یونائٹیڈ مسلم فورم کے نمائندے منیر الدین مختار، محترمہ ماریہ تبسم، جنرل سکریٹری کل ہند تعمیر ملت عمر شفیق اور دیگرنے خطاب کیا۔ جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل مفتی عمر عابدین نے کارروائی چلائی۔
0 تبصرے