کرناٹک: اوقات کارروزانہ 12 گھنٹے کرنے کی تجویز
بنگلور19 جون ( ناز میڈیا )کرناٹک حکومت نے کام کے اوقات (ورکنگ آورز) کو بڑھا کر روزانہ 12 گھنٹے کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ ریاستی حکومت کرناٹک کی "دکان اور تجارتی ادارہ ایکٹ 1961" میں ترمیم کے ذریعے یہ تبدیلی لانے جا رہی ہے۔ اس حکومتی تجویز کی مخالفت کرناٹک اسٹیٹ آئی ٹی ایمپلائز یونین نے کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، اگر حکومت کی یہ تجویز منظور ہو جاتی ہے تو سہ ماہی اوور ٹائم کی حد بھی 50 گھنٹے سے بڑھا کر 144 گھنٹے کر دی جائے گی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کرناٹک حکومت سے پہلے آندھرا پردیش حکومت بھی اسی طرح کی تجویز پیش کر چکی ہے۔ غور طلب ہے کہ ورکنگ آورز کو روزانہ 12 گھنٹے کرنے کے کئی فائدے اور نقصانات ہو سکتے ہیں، جو مختلف زاویوں سے دیکھنے پر سامنے آتے ہیں۔
زیادہ وقت کام کرنے سے ادارے کی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر مینوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن جیسے شعبوں میں۔ بعض صورتوں میں ملازمین ہفتے کے کم دن کام کر کے زیادہ گھنٹے دے سکتے ہیں، مثلاً 4 دن پلس 12 گھنٹے = 48 گھنٹے، جس سے انہیں ہفتے میں ایک دن کی اضافی چھٹی مل سکتی ہے۔ اگر کسی پروجیکٹ پر وقت کی کمی ہے، تو لمبے ورکنگ آورز سے جلد مکمل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر اضافی اوقات کو اوور ٹائم سمجھا جائے، تو محنت کش طبقے کو مالی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ حالانکہ اس کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جیسے مسلسل 12 گھنٹے کام کرنا دماغی دباؤ، نیند کی کمی، اور جسمانی تھکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے، جو طویل مدت میں صحت کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
زیادہ وقت دفتر میں گزارنے سے ذاتی، خاندانی اور سماجی زندگی متاثر ہو سکتی ہے، جس سے ذہنی دباؤ اور تنہائی بڑھے گی۔ تھکے ہوئے ملازمین کی کارکردگی اور کام کے معیار پر اثر پڑتا ہے، غلطیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر فیکٹریوں یا خطرناک مشینوں والے کام میں زیادہ گھنٹے کام کرنے سے حادثات کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر 12 گھنٹے کام کا معاوضہ مناسب نہ دیا جائے تو یہ ایک طرح کا مزدوروں کا استحصال بن سکتا ہے، خاص طور پر غریب اور غیر تربیت یافتہ ورکرز کے لیے۔ ورکنگ آورز کو 12 گھنٹے کرنا نہایت حساس مسئلہ ہے۔ اگر اس میں رضامندی، مناسب تنخواہ، صحت و آرام کا خیال رکھا جائے تو یہ وقتی طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے، ورنہ یہ سماجی و جسمانی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ کسی بھی فیصلے سے پہلے ملازمین، ماہرین صحت اور لیبر یونینز سے مشورہ ضرور کرے۔
0 تبصرے