سترہ ستمبر کی حقیقت مسلمانوں کے قتل عام پر سرکاری جشن عزیز اللہ سر مست سینئر صحافی گلبرگہ
بیدر 16ستمبر ( ناز میڈیا اردو )17ستمبر کو علاقہ حیدرآباد کرناٹک جسے اب کلیان کرناٹک کے نام سے موسوم کیا گیا ہے میں کلیان کرناٹک کی آزادی کا امرت مہا اتسو سرکاری سطح پرنہایت مہتمم بالشان پیمانے پر منایا جارہا ہے جبکہ تلنگانہ میں سرکاری سطح پر یوم قومی یکجہتی منایا جا رہا ہے۔مرکز کی بی جے پی حکومت کی جانب سے تلنگانہ لبریشن ڈے منانے کا اعلان ہوا ہے۔17ستمبر جو کہ مسلمانان دکن کے ملی وقار کو ٹھیس پہنچانے کا افسوس ناک دن ہے،کو مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے ترنگا بائیک ریالی نکالی گئی۔17ستمبر کو تلنگانہ اور کلیان کرناٹک میں سرکاری جشن کا انعقاد انتہائی کربناک اور تکلیف دہ ہے لیکن مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے شہدائے پولیس ایکشن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بجائے ترنگا ریالی کا اہتمام کرنا مسلمانوں کے جذبات کو ہی نہیں ملی وقار کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ایسا لگتا ہے کے مجلس اپنی تاریخ اور اپنا ماضی فراموش کرنا چاہتی ہے۔
سانحہ سقو ط حیدرآباد کو 74سال گزرنے کے باوجود اس سانحہ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے میں آج بھی پس و پیش سے کام لیا جا رہاہے اور مسلمانوں کو غدار ٹھرایا جارہا ہے مسلمانوں کے قاتلوں کو انعام و اکرام اور اعزاز دیا جارہا ہے۔ اگر دکن میں مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کے آغاز کو سلطان علاو الدین خلجی کی فتح دیو گری 1294سے شمار کیا جائے توآج2022میں مسلمانان دکن کی تاریخ کی ساتویں صدی کو پورے ہوئے 29سال بیت چکے ہیں۔بہمنی سلطنت کے قیام 1347سے لے کر عہد آصف جاہی کے اختتام 1948تک دکن کے اس خطہ پر مسلمانوں کا مسلسل اقتدار رہا۔اس پورے عرصہ میں اس خطہ پر اسلامی تہذیب تمدن اور ان کے مظاہر کی بڑی گہری چھاپ نمایا ں رہی۔ستمبر1948میں حیدرآباد دکن کی آزاد خودمختار مملکت آصفیہ پر انڈین یونین کے فوجی حملے نام نہاد پولیس ایکشن کے نتیجہ میں نہ صرف مسلمانوں کا قتل عام،مسلم خواتین کے بے حرمتی اورمساجدمسلمانوں کی املاک کی تباہی و بربادی ہوئی بلکہ دکن سے پوری مسلم تہذیب و تمدن کا جنازہ ہی اٹھ گیا۔سقوط مملکت آصفیہ جہاں ایک جانب مسلمانوں کے لئے اُن کی اجتماعی زندگی اور قومی تاریخ کا بدترین سانحہ اور اس سے بڑھ کر ملی تاریخ کا المیہ ہے وہیں دوسری جانب اس سانحہ اور اس المیہ کی یاد کا مسلمانان دکن کے ذہنوں میں تازہ رہنا ان کے مستقبل کے اجتماعی وجود کے لئے موثر ہو نا گزیر ہے۔پولیس ایکشن کی خوں ریز ظالمانہ داستان پر پردہ ڈالنے اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی منظم سازش کے تحت پولیس ایکشن کو تحریک آزادی کا نام دیتے ہوئے مسلمانوں کے قاتلوں کو مجاہدین آزادی اور مسلمانوں کے قتل عام کے یوم 17ستمبر کو یو م جشن آزادی کلیان کرناٹک قرار دیا گیا ہے۔ریا ست حیدر آباد کے ہندوستان میں انضمام کے لئے کی گئی فوجی کارروائی کو تحریک آزادی کا نام دیا جانا اور ہر سال17ستمبر کو علاقہ کلیان کرناٹک میں جشن آزادی کااہتمام کیا جانا در اصل مسلمانوں کو ذہنی اذیت پہنچانے کے مترادف ہے۔انڈین یونین میں علاقہ حیدرآباد کرناٹک کے انضمام کی کارروائی پولیس ایکشن کو تحریک آزادی کا نام دیا جا کر 17ستمبر کو جو پولیس ایکشن کا خونی دن ہے علاقہ کلیان کرناٹک میں جشن آزادی منانے کا سلسلہ گذشتہ26سالوں سے جاری ہے اس کے لئے بی جے پی کے ساتھ ساتھ جنتا دل اور کانگریس دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔کانگریس کی حکومت نے علاقہ کلیان کرناٹک میں 17ستمبر کو سرکاری سطح پرجشن کے انعقا د کا آغاز کیا۔چیف منسٹر ایس ایم کرشنا نے2لاکھ روپئے فنڈ جاری کیا اور نام نہاد مجاہدین آزادی کی تاریخ کو کرناٹک کے تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے احکام کئے۔21اکتوبر1997کو جنتادل کی حکومت نے گلبرگہ شہر کے تما پوری سرکل پر پولیس ایکشن کے بدنام ہیر ولبھ بھا ئی پٹیل کے مجسمہ کی اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کے ہاتھوں نقاب کشائی کروائی اور اسطرح علاقہ کلیان کرناٹک میں ہر سال17ستمبر کو ولبھ بھا ئی پٹیل کے مجسموں اور پورٹیرٹس پر پھول مالا چڑھانے کے علاوہ پر چم کشائی کی جانے لگی۔ یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ تما پوری سرکل،مولوی عبدالکر یم تماپوری کے نام سے موسوم تھا جو مجلس اتحاد المسلمین کے صدر تھے۔
اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پولیس ایکشن کے نام پر ہندوستانی افواج کا جارحانہ اقدام نظام اسٹیٹ کے خلاف نہیں بلکہ اسٹیٹ کے مسلمانوں کے خلاف تھا۔ہندوستانی فوج نے حملے کرنے کے لئے27محاذ کھولے تھے جن کی زد میں حیدرآباد ریاست کے سرحدی اضلاع ہی آئے۔ حیدرآباد کرناٹک (کلیان کرناٹک) اور مرٹھواڑہ کے اضلاع گلبرگہ بیدر،یادگیر،رائچور،عثمان آباد،لاتور میں مسلمانوں کے قتل و خون کا بازار گرم ہوگیا، ریاست حیدر آباد پر انڈین یونین کی فوجی یلغار کو بعد میں حکومت ہند نے پولیس ایکشن کا نام دیا۔غالبایہ نام حیدر آباد کے پولو کھیل کی مقبولیت کی مناسبت سے رکھا گیا تھا۔1947میں 13تا 17ستمبر 5روزہ جنگ ہوئی اور جنگ بھی ایسی کے فوج کا مقابلہ فوج نے نہیں کیا بلکہ ہندوستانی فوج نے معصوم عوام اور آبادیوں پر یلغار کیا۔ پولیس ایکشن کے دوران مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان قتل عام مراٹھواڑہ میں عثمان آباد، لاتور بیڑ اور حیدرآباد کرناٹک (کلیان کرناٹک) میں یادگیر ضلع کے شاہ پور،شوراپور،سگر، گو گی، یادگیر،گرمٹکال،گلبرگہ ضلع کے الند،افضل پور، جیورگی اور گلبرگہ شہر میں ہوا۔ان مقامات پر پیش آئے مسلمانوں کے قتل عام اور مسلم خواتین کی بے حرمتی کے واقعات آج بھی رونگٹھے کھڑے کر دیتے ہیں۔عثمان آباد کی وہ گھاٹیا ں آج بھی موجود ہیں جہاں لا تعداد مسلمانوں کو قطار میں ٹہر ا کر انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔شورا پور کے مسلمانوں کو ہاتھ رسیوں سے باندھ کر جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے پہاڑ کے دامن میں لایا گیا جہاں بیک وقت تلواروں سے ان کی گر دنیں اڑائی گئیں۔شاہ پور کاقدیم بس اسٹانڈ اور تعلقہ پنچایت کا کا مپلکس آج جہاں واقع ہے وہ میدان مسلمانوں کی قتل گاہ بن گیا تھا اور دور دور تک نعشوں کے انبار لگا دیئے گئے تھے۔شاہ پور تعلقہ کے سگر میں ایک اور ایکشن بھی ہوا جسے آج بھی عمر ایکشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں سگر کے جر ی مسلمان، محمدعمر کو گھیر کر شہید کیا گیا۔بیدر اور اس کے تعلقہ جات و قصبات میں مسلمانوں کا قتل عام اس قدر ہوا کہ صرف زمین ہی سرخ نہیں ہوئی بلکہ مانجرا ندی میں مسلمانوں کا خون اور پانی ایک ہو کر بہنے لگے،ندی نالوں میں مسلمانوں کی نعشیں بہتی رہیں۔الغرض بیدر،گلبرگہ،یادگیراضلاع میں مسلمانوں کی نہ جان محفوظ تھی اور نہ مال نہ عزت و آبرو،ان اضلا ع میں کوئی خاندان ایسا نہیں ہے جس کا کوئی نہ کوئی فرد پولیس ایکشن میں شہید نہ ہوا ہو۔قوم پرست روزنامہ رعیت حیدرآباد کے ایڈیٹر نرسنگ راؤ نے اپنی تحریر کردہ ڈائری جو اخبارات میں شائع ہوئی لکھا کہ15مہینوں میں رضا کاروں نے اتنا نہیں کیا جتنی 15دنوں میں فوج اور غنڈو وں نے تباہی لائی۔اضلاع کے دورہ کے موقع پر مجھے عورتوں کے سوا ایک بھی مرد نظر نہیں آیا۔وزیر اعظم پنڈت نہرو نے مولانا ابوالکلام آزاد کے اصرارپر پنڈت سندر لال کمیشن تشکیل دیا۔یہ کمیشن تین رکنی تھا۔پنڈت سندرلال نے علاقہ حیدرآباد کرناٹک(کلیان کرناٹک)اور مرٹھواڑہ کے اضلاع کا دورہ اور مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ میں نے باؤ لیوں کو خواتین کی نعشوں سے بھرا ہوا پایا۔ضلع بیدر اور یادگیر کے ندی نالوں میں انسانوں کا خون اور پانی ایک ہو کر کئی دنوں تک بہتا رہا۔ہر جگہ بد حال بیو ائیں، یتیم بچے اور اجڑی بستیاں نظر آئیں۔پنڈت سندر لال نے یہ بھی لکھا کہ میں نے ہر طرف نعشیں ہی نعشیں دیکھیں اور پنڈت جواہر لال نہرو کو لکھا کہ کیا تم نے مجھے نعشوں کو شمار کرنے کے لئے بھیجاہے؟مسلمانوں کی اس قدر بھیانک تباہی و بربادی کی ظالمانہ کارروائی کو جدوجہدآزادی قراردینا اور پھراس یوم پر سرکاری جشن منانا مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑ کنے کے مترادف ہے۔پولیس ایکشن کی پوری ظالمانہ تاریخ کو ہی بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔افسوس کے مسلمان بھی اس نام نہاد جشن آزادی میں حصہ لے رہے ہیں اور جوش و خروش سے منارہے ہیں۔
NEWS & ADVERTISEMENT CONTACT 9880736910
0 تبصرے